شوگر کی ٹائپ ون اور ٹو کی مختلف علامتیں



ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کی علامات میں کیا فرق ہے۔

ٹائپ ون ڈائیباٹیز اور ٹائپ تو ڈائیبا ٹیز کی علامات عمومی طور پر ویسے تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔

لیکن ٹائپ ون کی علامات تھوڑا اچانک آ لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بچے میں فلو جیسی علامات نظر آسکتی ہیں، اور جب یہ علامت کچھ عرصے تک نہیں جاتی تو والدین بچے کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتے ہیں، جہاں جا کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو تو شوگر کی ٹائپ ون ہو گئی ہے۔ کئی بار والدین بچے کو اس لئے بھی ڈاکٹر کے پاس لیجاتے ہیں، کیونکہ وہ بہت ہی سستی کا مظاہرہ کرتا ہے، اور پھر ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچے کو تو شوگر ہو گئی ہے۔

اس سے بلکل الٹ، ٹائپ ٹو ڈائیبایٹیز میں علامات کئی سال تک آتی جاتی رہتی ہیں، اور جب بگڑ جاتی ہیں، تو تب جا کر پتہ چلتا ہے کہ شوگر ہوگئی۔

شوگر کی دونوں اقسام کی علامات ایک جیسی ہونے کے باوجود، الجھا دینے والی یا غیر واضح کیوں ہیں؟

 تو اس بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کی علامات کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ یہ آہستہ آہستہ جڑ پکڑتی ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ادھیڑپن اور ڈائیابیٹیز کی علامت میں مماثلت ہوتی ہے۔ جب انسان پر بڑھاپا آتا ہے تو اُس کی جلد خشک ہونا شروع ہوتی ہے، اور بار بار باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ یہی علامات شوگر میں بھی ہوتی ہیں۔ اس لئےصرف علامات سے ٹائپ ٹو کی تشخیص مشکل ہے۔ اگر آپ کوئی ایسا دوا لیتے ہیں جس سے آپکو بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے، تو شوگر کی بھی یہی علامت ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ مریض تھکاوٹ یا بار بار باتھ روم جانے کی اِن علامات کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی صحت کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔

ڈاکٹر صاحبان کا کہنا ہے کہ اگر آپ میں ایسی کوئی بھی علامت پیدا ہو، تو آپ فوراً کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں، اور فاسٹنگ بلڈ شوگر ٹیسٹ کیلئے کہیں۔ 

ویسے تو ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کسی کو بھی ہو سکتی ہے، 
لیکن اگر آپ کا وزن زیادہ ہے،
 آپ کا کولیسٹرول زیادہ ہے یا آپ کو بلڈ پریشر ہے،
 یا آپ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں، 
یا پھر آپکے خاندان میں شوگر ہے، 
تو پھر آپکو اس مرض کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ 

اگر آپکےخون کا ٹیسٹ ہوتا ہے تو پھر یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ آپکو شوگر ہونے والی۔ تاہم، آپ اپنی خوراک اور ورزش سے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ باقاعدگی سے ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کروائیں۔

Comments