معذوری کی کہانی۔آپ اس سے بچ سکتے ہیں

Image result for amputated person










65 سالہ کریم بخش بیساکھی پکڑے اپنی بنجر زمین کو آہ بھر کر دیکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا ان کھیتوں میں ہریالی لہلہاتی تھی پھر کریم کو ذیابیطس یا شوگر کی بیماری ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس مرض نے انہیں معذور اور ان کے کھلیانوں کو ویران کر دیا۔

’انفیکشن کی شروعات پاؤں کی ایک انگلی کے زخم سے ہوئی اور پھر پورا پاؤں کالا ہو گیا۔ مسئلہ بڑھتا ہی گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ذیابیطس کے باعث میری ٹانگ کی رگیں متاثر ہو گئی ہیں اور واحد حل تھا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے۔ تو میں نے کہا پھر کاٹ دیں۔ جان تو بچ گئی لیکن اب میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں نے جو زمین ٹھیکے پر دی تھی اس کے بدلے مجھے گندم مل چکی ہے۔ اب کچھ باقی نہیں۔‘







یہ کہانی صرف کریم بخش کی نہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے اعضا میں السر کے باعث انفیکشن ہو جاتا ہے اور انھیں کاٹنا پڑتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ معذوری کے باوجود بیشتر مریضوں کو بار بار آپریشنز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کریم کے دوسرے پاؤں میں بھی السر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کریم سے پوچھا گیا کہ وہ دوسرے پاؤں کا علاج کب کروائیں گے تو ان کا جواب تھا، ’مصنوعی ٹانگ لگوانے کے بعد سوچوں گا۔‘
کریم اپنا مزید علاج کروانے کے لیے جھجک رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ اپنا علاج تب کرواتے ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔
Image result for amputated person 
یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
بروقت علاج سے ذیابیطس کے مریضوں کے اعضا اور جان بچائی جا سکتی ہے لیکن صحت کی غیرمعیاری سہولیات اور آگاہی کی کمی کے باعث اکثر علاج میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔
 پاکستان میں موجودہ طرز زندگی کے باعث لوگوں میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے لوگ گھر پر ٹوٹکے آزما کر اپنا علاج کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
’ہمیں اس بات کی آگاہی پھیلانی چاہیے کہ زخم کا بروقت علاج نہ ہو تو وہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر مت ٹالیں، فوری علاج کروائیں۔‘




Comments