کیا ذیابیطس کے مریضوں کے بچے نہیں ہوتے؟

کیا ذیابیطس کے مریضوں کے بچے نہیں ہوتے؟ 










  اس سوال کا جواب دو حصوں میں دیا جائے گا۔ پہلا حصہ ذیابیطس کے مردوں سے متعلق اور دوسرا حصہ ذیابیطس کی خواتین مریضوں کے مسائل کے بارے میں ہے۔  ایک طرف تو بڑھتی ہوئی آبادی ایک مسئلہ ہے لیکن دوسری طرف جن  جوڑوں کی اولاد نہ ہو تو  وہ اس کی وجہ سے سخت  سماجی اور جذباتی  مسائل  کا شکار ہوتے ہیں۔ جب بھی کسی جوڑے کے ہاں اولاد نہ ہونے کا مسئلہ ہو تو ان میں سے تقریبا” پچاس فیصد  مسئلہ خواتین اور پچاس فیصد مسئلہ مردوں  کے نظام میں خرابی کے باعث ہوتا ہے۔ 

اگر ایک سال کے عرصے میں  باقاعدہ تعلقات کے باوجود اولاد نہ ہو تو اس جوڑے کو انفرٹائل  یا بانجھ  کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس آجکل کم عمر افراد کو لاحق ہورہی ہے۔ اور معاشی تقاضوں کی وجہ سے لوگ اور زیادہ دیر سے شادیاں اور اپنی فیملیاں شروع کررہے ہیں ۔ ان وجوہات کے باعث  انفرٹیلیٹی  عام ہورہی ہے۔

بچے ہونے کا نارمل نظام:








بچے ہونے کے لئیے لازمی ہے کہ خواتین  میں ماہواری کا نظام  درست ہواور اووری سے  انڈے  یا اووم  درست طریقے سے پرورش پا کر  ان ٹیوب میں پہنچ سکیں جہاں پر فرٹیلائزیشن  کا پروسس  مکمل ہوتا ہے۔فرٹیلائز ہونے کے بعد یہ ایمبریو بچہ دانی کی دیوار میں پلنا شروع ہوتے ہیں ۔  اسی طرح  مردوں میں  بھی سپرم کی صحت ، تعداد اور جنسی صحت نہایت اہم ہے۔  اگر ان میں سے کوئی بھی عوامل درست طریقے سے کام نہ کریں تو  حمل  ٹہرنے میں  مشکل ہوسکتی ہے۔

ذیابیطس:
ذیابیطس میں  لبلبے کے صحیح طرح کام نہ کرنے کی وجہ سے  خون میں شوگر کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے  جس کی وجہ سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ ان پیچیدگیوں میں  خون کی نالیاں پتلی ہونے کی وجہ سے مختلف اعضاء میں خون کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ ذیابیطس میں   اعصابی نظام میں  خرابی کے باعث   نیوروپیتھی پیدا ہوتی ہے۔ 

ذیابیطس کے مریضوں میں مٹاپا بھی عام ہے ۔ مٹاپے اور ذیابیطس کی وجہ سے مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون  بھی کم ہوجاتا ہے۔  تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ذیابیطس میں  انفرٹیلیٹی  یا بانجھ پن  کی وجہ ان تین عوامل  پر مبنی ہے۔ 
  1. خون کی نالیوں کا متاثر ہونا، 
  2. نیوروپیتھی ہونا اور
  3. مردانہ  ہارمون کی کمی۔ 
 ان کے علاوہ ذیابیطس کے مریضوں میں تھکن کی شکایت اور جنسی  خواہش کی کمی  بھی عام  مسئلہ ہے۔

علاج:







ذیابیطس کے مریضوں میں انفرٹیلیٹی یا بانجھ پن  کا علاج ایک سادہ  حل نہیں ہے۔ یہ  کئی مختلف مسئلوں کو بیک وقت  حل کرنے سے متعلق ہے۔ 
سب سے پہلے تو ذیابیطس کا کنٹرول بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ بلڈ شوگر کو نارمل دائرے میں رکھنے سے اس کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر خون میں شوگر کی مقدار نارمل ہوگی تو خون کی چھوٹی اور بڑی نالیوں میں خون کا بہاؤ درست رہے گا۔  اس سے نیوروپیتھی  سے بھی بچت ہوگی۔ 

 خون میں شوگر زیادہ ہو تو اسپرم کی کوالٹی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر اسپرم  میں خرابی ہوتو ان سے حمل  نہیں ٹہرتا اور اگر ٹہر بھی جائے تو زیادہ تر  مس کیرج سے  ختم ہوجاتا ہے۔ سٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی کہ ذیابیطس کے مریضوں میں  ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ایک عام مسئلہ ہے۔ ذیابیطس کے عمر یافتہ مریضوں کو جو اپنی فیملی مکمل کرچکے ہوں ، ٹیسٹوسٹیرون جلد پر لگانے والے جیل، پیچ یا انجکشن کے ذرئعیے دے سکتے ہیں ۔ 

اس سے ان مریضوں کی تھکن ، جنسی خواہش کی کمی، ڈپریشن،  زندگی میں دلچسپی وغیرہ کی  علامات میں بہتری پیدا ہوگی لیکن یہ علاج ذیابیطس کے کم عمر افراد کے لئیے  انتہائی غیر مناسب ہے کیونکہ اس سے ان کا اپنا اندرونی نظام  شٹ ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ اگر طویل عرصے تک ٹیسٹوسٹیرون استعمال کریں تو  مستقل اور نہ پلٹنے والی انفرٹیلیٹی  یا بانجھ پن پیدا ہوجاتا ہے۔
اس  پیپر سے آپ کو اینڈوکرائن سے متعلق  ذیابیطس کے مریضوں میں بچے نہ ہونے کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات فراہم ہوئی ہوں گی۔ مشورہ یہ ہے کہ  ذیابیطس کا کنٹرول بہتر کرنے کے علاوہ فرٹیلیٹی  کے اسپیشلٹ ڈاکٹر سے رجوع کریں  
These informations are taken from the blog of Dr. Lubna Mirza, we are thankful to him for providing these information.






Comments